مقاصد اور افعال

2

مقاصد

وفاقی شرعی عدالت ۱۹۸۰ء کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے معرض وجود میں آئی۔ عدالت کے معزز جج صاحبان نے اسی وقت سے اسلامی شریعت کی عظمت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگیاں اس عظیم فریضے کی ادائیگی کے لئے وقف کر دی اور قرآن و سنت کی روشنی میں مدلل فیصلے دیئے جو کہ اسلامی قوانین کی ترویج کی تاریخ میں ایک فقیدالمثال اور درخشاں باب کا اضافہ ہیں۔ روزافزوں اجاگر ہونے والے نئے نئے مسائل بہت سے نئے سوالات کو جنم دیتے ہیں جس کے قانونی حل کے لئے کوششیں بھی جاری رہتی ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ مقدمات کو تیزی سے نمٹائے اور حائل رکاوٹوں کو حتی المقدور دور کیا جائے۔ اسلامی تعلیمات اس بات پر زور دیتی ہیں کہ عدل و انصاف کا بول بالا ہو اور شکایات کا فوری ازالہ ہو اور کسی قسم کی تاخیر کی شدید مذمت کرتا ہے۔ حتیٰ کہ مغربی نظریہ بھی یہی ہے کہ انصاف میں تاخیر دراصل انصاف کی شکست ہے۔ عدالتِ ہذا کے معزز جج صاحبان کمالِ حکمت، دانائی، علم اور حاصل اختیارات کے باعث کوشاں رہتے ہیں کہ کسی بھی وجہ سے معاملات کے نمٹانے میں غیرضروری تاخیر سے گریز کیا جائے۔ سائلین کو انصاف کی فراہمی اُن کی دہلیز پر پہنچانے کی غرض سے کیسوں کی سماعت لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں قائم بینچ رجسٹریوں میں بھی کی جاتی ہے۔ اس غرض سے ان بینچ رجسٹریوں میں وقتاً فوقتاً عدالتی نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ عدالتی قوانین کے مطابق اگر جیل سے اپیل دائر کی گئی ہو اور اپیل کنندہ اپنی نمائندگی کے لئے معاوضے کے عوض کسی وکیل کی خدمات حاصل نہ کرسکے تو عدالت اسے مفت قانونی معاونت دیتی ہے۔ اس معاملے میں وفاقی شرعی عدالت نے دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ دیگر ممالک میں یہ مفت قانونی امداد مفلس ملزم کو عموماً مفت قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیموں کے توسط سے ہوتی ہے اور عدالت بہت کم مواقع پر ایسی امداد کا معاوضہ ادا کرتی ہے۔  عدالت کی ذمہ داریوں کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ کسی بھی پٹیشن یا اپیل میں کوئی کورٹ فیس نہیں لی جاتی۔ جب عدالت اپنے سوموٹو اختیارات کا استعمال کرتی ہے تو اس کی پالیسی یہ ہوتی ہے کہ عدالت کے کام میں معاونت کرنے والے وکلاء، علماء، سماجی کارکن، دانشوروں اور عوام الناس کی حوصلہ افزائی ہو۔ اسی نقطۂ نظر کے تحت پاکستان کے شہریوں سے کسی مسئلہ پر عوامی رائے جاننے کے لئے معروف اخبارات میں پبلک نوٹس شائع کرائے جاتے ہیں۔

افعال

آئین کا آرٹیکل ۲۲۷ واضح کرتا ہے کہ تمام نافذ العمل قوانین کو قرآن اور سنت نبویؐ کے مطابق اسلامی سانچے میں ڈھالاجائے اور باب ۳ ۔ الف جو کہ وفاقی شرعی عدالت کے اختیارات سے متعلق ہے، عدالت کو یہ اختیارات تفویض کرتا ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لے اور اس نکتے پر فیصلہ کرے کہ آیا کوئی قانون یا اس کی کوئی شق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعین کردہ احکام کے مطابق ہے یا نہیں۔

(۱) آرٹیکل ۲۰۳۔ ب (ج) کے تحت کسی بھی قانون کا جائزہ لے اور فیصلہ کرے کہ وہ قانون یا اُس کی کوئی شق احکام اسلام کے مطابق ہے یا نہیں۔

(۲) ۱۹۸۲ء میں آئین کے آرٹیکل ۲۰۳۔د میں ترمیم کرکے عدالت کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ ازخود نوٹس لیتے ہوئے یہ جائزہ لے اور فیصلہ کرے کہ کوئی قانون یا اُس کی کوئی شق احکام اسلام کے مطابق ہے یا نہیں۔

(۳) عدالت کو حدود قوانین کے تحت ماتحت عدالتوں کے صادر کردہ فیصلوں کے خلاف اپیل کی سماعت کا اختیار بھی حاصل ہے۔ وہ ان مقدمات جن میں حدود کے تحت سزا دی گئی ہو اور اس سزا کی مقدار دو سال سے زائد ہو، سن سکتی ہے اور فیصلہ کرسکتی ہے۔

(۴) حدود کے مقدمہ میں اگر کسی کو حدکے تحت سزا دی گئی ہو تو یہ عدالت اُس سزا کی توثیق اور اس حوالے سے مناسب حکم دینے کا اختیار رکھتی ہے۔

(۵) اختیارات نگرانی کے تحت یہ عدالت کسی بھی ایسی عدالت کی دی ہوئی سزا کا جائزہ لے سکتی ہے جو کہ حدود سے متعلق ہو۔

عدالت کے اختیارات اور طریقۂ کار

۱۔ اس عدالت کو اپنے اختیارات کے استعمال کے ضمن میں وہ اختیارات بھی حاصل ہیں جو مجموعہ ضابطۂ دیوانی، ۱۹۰۸ (ضابطہ ۵ برائے ۱۹۰۸ء) کے تحت کسی سول عدالت کو حاصل ہوتے ہیں اس طرح وہ مندرجہ ذیل اختیار رکھتے ہیں:-

 الف) کسی شخص کو طلب کرنا اور اس کی حاضری کو یقینی بناتے ہوئے برحلف اُس کا جائزہ لینا۔

ب) کسی دستاویز کا مشاہدہ کرنا اور اسے طلب کرنا۔

ج) حلف نامہ کے ذریعے گواہی طلب کرنا۔

د) کسی گواہ یا دستاویز کی جانچ پڑتال کے لئے کمیشن مقرر کرنا۔

۲- عدالت کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ اپنی عدالتی کارروائی اور اس کے طریقۂ کار کو منظم کرنے کیلئے قواعد و ضوابط وضع کرے۔

 ۳- توہین عدالت کی کارروائی میں اس عدالت کو ہائی کورٹ جیسے اختیارات حاصل ہیں۔

۴- آئین کے آرٹیکل ۲۰۳۔د کی شق (۱) کے تحت کوئی بھی فریق کو عدالت کے سامنے اپنی نمائندگی کے لئے کسی ایسے وکیل کی خدمات حاصل کرسکتا ہے جو مسلمان ہو اور ہائیکورٹ کے وکیل کے طور پر اندراج کے بعد پانچ سال کا عرصہ پورا کرچکا ہو یا سپریم کورٹ کا وکیل ہو یا وہ فریق عدالت کی اپنی معاونت کے لئے مرتب کردہ مشیران فقہہ کی فہرست میںسے اپنی صوابدید سے کسی مشیرِ فقہہ کے ذریعے نمائندگی کرسکتا ہے۔

۵- اس عدالت کی مرتب کردہ مشیران فقہہ کی فہرست میں نام کے اندراج کے لئے شق (۴) میں موجود شرائط کے مطابق وہ شخص ایک عالم ہو اور اس عدالت کی نظر میں شرعی مسائل سے پوری طرح آگاہ ہو۔

۶- کوئی بھی وکیل یا مشیر فقہہ جو کہ عدالت کے سامنے کسی فریق کی نمائندگی کر رہا ہے ، وہ فریق کی نمائندگی نہیں کرے گا بلکہ متعلقہ کارروائی کے حوالے سے اپنے علم اور سمجھ بوجھ کے مطابق اسلامی نقطۂ نظر کو بیان کرے گا اور قانونی نکتہ کی وضاحت اور شرعی حکم کی تشریح کرے گا اور متعلقہ کارروائی میں اسلامی احکام کی تشریح سے متعلق اپنے مؤقف سے عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کرے گا۔

۷- عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پاکستان یا بیرون ملک سے کسی فرد کو جو کہ اسلامی احکام کے حوالے سے مکمل عبور رکھتا ہو، کسی بھی کارروائی میں اپنی معاونت کے لئے طلب کرسکتی ہے۔

۸- آرٹیکل ۲۰۳۔د کے تحت عدالت میں کوئی کیس یا درخواست دائر کرنے کے لئے کسی قسم کی کورٹ فیس کی ضرورت نہیں ہے۔